![]() | ![]() |
5/6/1992
غم اتنی شوکت سے دل بے جان میں اترا
جسے کوئی شاہ جنگ کے میدان میں اترا
––––––––
حدت سے تو نارنجی ہوجاتے ہیں شعلے بھی
تری آتش نظارہ سر دست رنگ لائی
––––––––
حزن و ملال مہر و وفا کا ہیں تقاضا
مشکل زمین میں کس قدر آسان میں اترا
––––––––
گننے کو مہ و سال بہت بیت گئے ہیں
زمین پی شاید کل ہی پریشان میں اترا
––––––––
اک اور قرض چڑھ گیا حیات کا مجھ پر
اک اور کوس قرب قبرستان میں اترا
––––––––
کچھ اور زندگی کی ساعتیں ہوئی ہیں کم
رازی براہ مرگ الی شان میں اترا
––––––––
تڑپ ہے کچھ سوا جو آج دل ہے پر سکوں
آنسو دروں چشم کس احسان میں اترا!
––––––––
اطراف یوں دیوار دشمنوں کی کھڑی ہے
لگتا ہے دوست روزن میں زنداں میں اترا!