دیباچہ

ہم میں سے ہر ایک شخس میں کیئ خزانےمخفی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خزانوں کو تلاش کیا جاے۔ میں نے اپنے والِد صاحب (خلیل الرحمن طور) سے سُن رکھا تھا کہ غم خزانے کی کُنجی ہے۔ اِس کُنجی کی حقیقت مُجھ پر اُٰس ناگہانی وقت عیاں ہوئی جب میرے والِد صاحب اِس دُنیاِ فانی سے کوچ کر گیے۔

حالاں کہ شعر تو میں بچپن سے کِسی نہ کِسی عتبار سے کہہ رہا تھا، لیکن والِد صاحب کی وفات کے بعد ہی مُجھے وہ کُنجی غم عتا ہوئی جس نے اِس خزانے کو کھولا۔ شعر لکھنے کے عمل کے بارے میں کیا خوب غالبؔ نے کہا۔



آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال می
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے


لاہور، پاکستان کی جم پل ہونے کے ناتے ، میری مادری زبان پنجابی ہے اور قومی زبان اردو رہی ہے، اس لیے شاید نواۓ سروش انہی زبانوں میں سنای دی۔ اور میں نے پوری ایمانداری سے اسے حرف بہ حرف محفوظ کیا۔ اسی لیے آپ کو یہ دونوں ہی رنگ یہاں ملیں گے۔

کیوں کہ میری پنجابی، لاہور شہر کی پنجابی ہے جو کہ اردو سے بہت قریب ہے، اس لیے مجھے امید ہے کہ اگر آپ کو پنجابی نہیں بھی آتی تب بھی آپ کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہو گی۔

ماں کا حق بیشک سب سے پہلے ، اس لیے شروعات پنجابی شاعری سے کی ہے۔ جس کے بعد دوسرا باب اردو شاعری کا ہے، اردو میں ہی میرا بیشتر کلام ہے۔

آخر میں، میں اپني شریک حیات کا شکریہ بھی لازم سمجھتا ہوں، جو کیئ برسوں سے میری سامع و ناقد واحد کی ذمہ دمری انتہای صبر و تحمل سے انجام دے رہی ہیں-