تیرا درد مجھ کو بھلا
لگے
تیری یاد مجھ کو شفا لگے
یہ فراق تو وہ فِراق ہے
جو وصال سے بھی بھلا لگے
یہ وہ پھول ہے جسے دیکھ کر
میرا زخم یوں ہی ہرا رہے
میرا آئینہ ہوا چُور چُور
میرے آنسو موتی نما لگے
تیری یاد کے جلے دیپ پھر
شب ہجر سحر نما لگے
حسیب درد و اشک کے یہ سلسلے
تیری عمر بھر کی متاع لگے