ایک بُوند پانی کی

ایک بُوند پانی کی، پُوچھتی پھِر مُجھ سے
وہ زمیں کیوں چھوڑ آیا،اُنس تھا جِسے تُجھ سے


وہ شجر کیوں چھوڑ آیا، جِس کی ٹھنڈی چھاؤں تھی
چِلچِلاتی دھُوپیں اور دُور، سایاِ شجر تُجھ سے


اجنبی اِن راہوں پر، مارے مارے پھِرتے ہو
وہ شہر کیوں چھوڑ آۓ ، پیار تھا جِسےتُجھ سے


ایک بُوند پانی کی مُجھ کو کیوں ستاتی ہے
مُجھ کو کیوں رُلاتئ ہے، چیختی ہے کیوں مُجھ پہ


کہتی ہے پلٹ جاؤ، دیکھو اپنے گھر جاؤ
یہ نہ ہو کہ مر جاؤ، اور دُور وہ شجر تُم سے


اجنبی اِس بستی میں، ہے کوئ تُمہارا بھی
اب کِسے پُکارو گے، دوُر سب کے سب تُم سے


آپ ہی بتا دیں کیا، اُس کو سچ بتا ڈالوں؟
سب کا سب بتا ڈالوں ، کیا ہوا سِتم مُجھ پے


کاش میں بتا سکتا، زخم سب دکھا سکتا
اس زمیں کی چاہت میں اے دلِ ہزیں تُجھ پے


اُس شہر کے باسی لوگ، پیار سے کیا واقف ہیں؟
ہاں اُسی شہر کے لوگ، پیار تھا جِسے مُجھ سے


اُس شجر کا سایا بھی، کب مُجھے مُیسر تھا
چھاؤں کب مِلی مُجھ کو، دھُوپ ہی رہی مُچھ پہ


سوچتا تو میں بھی ہوں ، اب حشر بپا کر دوں
اُس پہ یہ نِہاں کر دوں، ظُلم جو ہوا مُجھ پے


حسیب پر میں ڈرتا ہوں، سِہم ہی نہ جاۓ وہ
سُوکھ ہی نہ چاے وہ، رُوٹھ کے کہیں مُجھ سے