تیرے بعد

مانا میرے حضور، وہ رفاقت نہیں رہی
بس ہو کر تُم سے دوُر ، راحت نہیں رہی


زندہ بھی ہیں، مگن بھی ہیں جہان میں
بس زندگی کی پہلے سی چاہت نہیں رہی


تو تھا، تو میں کھڑا تھا تیرے حصار میں
تو جو نہیں تو کوئ حفاظت نہیں رہی


بیتا ہے اِک زمانہ تیرے فِراق میں
اب بھی تیرے فِراق کی عادت نہیں ہوئی


آنے میں کس قدر ہمیں دیر ہو گئی
اُسے خیرباد کہنے کی اجازت نہیں ملی


شاید اسی لیۓ ہے طبیعت میں اضطراب
رُخصت کے وقت حسیب تُجھے مُہلت نہیں ملی