ہجر جاناں

غم دوراں سے نِکل کر جو میں گھر آتا ہوں
ہجر جاناں کے تھپیڑوں سے بِکھر جاتا ہوں


شِدت رنج جب حد سے گُزر جاتی ہے
میں تیری یاد کی آغوش میں آ جاتا ہوں


دِل تیری یاد کی راہوں پہ نِکل جاتا ہے
میں تیری دید کو، ساتھ چلا آتا ہوں


دل سے ہو کر ، آنکھوں میں اُتر آتی ہیں
مُشک بو یادوں کی برسات میں گِھر جاتا ہوں


رُت یہ تھمتی ہی نہیں طلوع صحر ہونے تک
پھِر غم دوراں کے گِرداب میں گِھر جاتا ہوں


اِک تسلسُل ہے، جو تھمتا ہی نہیں ہے حسیب
راوی لِکھے گا یہ تھمنے پہ، کہ مر جاتا ہوں