محبتوں کی وہ پہلی بہار یاد
آی
ہم سفری سے پہلے کی
شناسائ
سفر سے پہلے مہکتا ہوا دیباچا
نظر سے دور دلوں کی وہ بڑھتی رانائ
وه خط وه پھول محبتوں کے وہ پروانے
دلوں کے بیچ مہکتی ہوئی شناسائ
آغاِذ سفر بھی مجھ کو ہے اب بھی یاد زرا
حسیِن ساتھ نے راہ تھی جو مہکائ
اور پھِر بدلنے لگا یکایک کیوں وہ نظارا
حسیں سفر پہ کیسے غموں کی اوس تھی چھائ
سفر کٹھن سے کٹھن جو ہوتا جاتا تھا
حسین شفق پر غموں کی اک گھٹا جھائ
غموں کے بیچ ہی کھلنے لگے تھے پھول بھی جب
اُداس شام میں مہک گُل کیسی غموں کے ہمراہ
آئ
وہ بوۓ گُل نے تھا کیسا غموں کو چاق کیا
اُسی بہار کو گویا ملی اک نیئ رانائ
سفر تویل ہے اور قدم بھی بوجھل حسیب
اُسی بہار کی اب بھی ہے سنگ پُھلواری