عمر ہے لگتی, اشعار غزل ہونے تک
دیا جلتا ہو سرے شام
سحر ہونے تک
چھوٹی بہروں میں بات بڑی کہتے ہو
جِس کو لگتے ہیں,
مہ و سال اثر ہونے
تک
تمہی کہو کہ مُحبت ہے کِس سزا کا نام
جنوں نوردی, ہزیں گرِفتہ, آشُفتہ سر, انجام ہونے
تک؟
ہاں میری جان نہ راہیں اُداس کیوں کر ہوں؟
خلِش رہے گی یہ قصہ تمام ہونے تک
خلِش بھی ایسی احاطہ جاں کیے ہر دم
وہ چند لمحے مگر مے لب جام ہونے تک
یہ مے بھی وہ ، جو محفوظ ہے ازل سے کہیں
اثر جو کرتی ہے، تُجھ سے کلام ہونے تک
یہ زہرے زیست، دل سے اُتر گیئ ہے حسیب
رگوں میں جان رہے، حق بر زبان رہنے تک