میری داستاں، تیری
داستاں
میرا غمکدہ ، تیرا
گُلستاں
میری چشم نم رہے تر سدا
تیری چشم نور میں، مہو جہاں
میری داستاں کوئ اور ہے
کوئ اور ہے تیری داستاں
میرے ہم نفس زرا یہ بتا
کیا تُجھے ملی ہے کبھی اماں
اُس درد سے ، اُس زخم سے
جو بنے ہے زہر قاتل جاں
اُس شعلہ تیر نگاہ سے
وہ نظر جو، ہو گئی بدگُماں
ملے ہمسفر جو بچھڑ گئے
وہ دوست جو ہوے آں جہاں
اور وہ بھی تو ہیں ، ہم نفس
ہاں مگر ہیں وہ تو وبال جاں
وہ جو تیر کھا کے نظر میں ہیں
جن سے دوستی کا، تھا ہوا گُماں
حسیب ، درد سب کا نصیب ہے
ہو میری داستاں ،یا تیری داستاں