صفیں آگے کی خالی ہو جانے لگی
ہیں
راہداریاں موت ہی کی نظر آنے لگی
ہیں
دل کا شیشہ کُچھ دھُندلا سا گیا ہے
جاں کی گِرھیں یوں کھُل جانے لگی ہیں
رونقِ جہاں دل کو بھاتی نہیں ہے اب
انجام کی فِکر جو اب کھانے لگیں ہیں
حلقاِ یاراں میں بھی ،اجنبی سا ہوں
تاریکیاں لہد کی اب ڈرانے لگیں ہیں