چراغ مَنزِل

اندھیری رات میں دیا جلا رہا ہے کوئی
شبِ فِراق میں آنسُو بہا رہا ہے کوئی


یہ کیسی یاد ہے ، دِل پاش پاش کر جاۓ
کہ جیسے شاخ پر کانٹے اُگا رہا ہو کوئ


بِچھڑتے وقت کے لمحے بُھلا نہیں پاتا
وہ میرے جِسم سے جاں کو چُرا رہا ہو کوئ


مُجھے ملال نہیں، تو نے اپنی راہ کیوں لی
مگر وہ علم، جو مُجھ کو سِکھا رہا تھا کوئ


حسیب آج بھی خوابوں میں ڈھُونڈتا ہوں اُسے
چراغ بَن کر جو مَنزِل دِکھا رہا تھا کوئ