اپنے لہو سے پیاسی دھرتی کی کب
تک پیاس بُجھاو گے
دینِ عطاعت
کے شُعلوں سے کب تک گھر اپنے جلاؤ گے
فہم و فراست کی دولت کو کیوں تُم نے زنگال کیا
وہم و تعصُب کی کالک کو کب تک منہ پر لگاؤ
گے
مانا کہ اسلاف تُمھارے، مشعلِ راہ بن نہ سکے
آنے والی نسلوں کو، کیا تُم بھی راہ نہ دِکھلاؤ
گے؟
ماضی کے تاریک نگر میں تُم، ڈرتے، چھُپتے پھرتے ہو
حال کا سُورج ، سوا نیزے پر ہے، کیا اب بھی نہ باہر
آؤ گے
مُستقبِل کے دروازے پر ننے مُنے ہاتھوں کی دستک
یہ ہاتھ تُمہارا مُستقبِل ہیں، کیا اِن کو راہ
دِکھلاو گے؟
حسیب تُم سی مایوس نسل کا سایا اِتنا گِہرا
ہے
سب راہیں تاریک پڑی ہیں، بھاگ کے اب کہاں
جاؤ گے؟