رہبر سمجھتے تھے جِسے رہزن ہمارا
نِکلا
یوں میرے اہلِ وطن تیرے نام خسارہ
نِکلا
وہ جو اربوں تُجھ پہ نِچھاور کرتا جاتا
تھا
تِجوری اُس کی بھری، اور خون تُمھارا
نِکلا
کرپشن اُس کی تِجوری میں دولت کا اقاما
ٹھہری
اور مُلک تیرا تو بس قرضوں کا ہی مارا
نِکلا
وقت آ پہنچا کہ مقافات عمل ہو جاۓ
کیسا بُزدِل و کم ظرف وہ رہزنِ اعلی نِکلا
عارضہ قلتِ تعیُش کا ہے اُس کو حسیب
ہاۓ نِکلا بھی تو خُودغرضی کا مارا نِکلا