جاں نِثارانِ وفا

ظُلم ڈھانے والے نہ جانیں کیا تُم ہو
وہ نہ جانیں کہ، جاں نِثارانِ وفا تُم ہو


مایئں بیٹیاں بیٹے جوان اور بُوڑھے سب
سیف اللہ عہد ٹھیہرا وہ قافلہ تُم ہو


جِن کے لہو سے گُلِستاں سیراب ہوا ہے
چمن کی رونق ہو، گُلوں کا مہکنا تُم ہو


ظُلم کی تیز ہوائں جِسے بُجھا نہ سکیں
سِتم کی رات میں راہ دِکھاتا ہوا دیا تُم ہو


وہ سلاطین امت جو تُم سے غافل ہیں
میرے خُدا ہوں وہ غارت ، سُرخرو تُم ہو


ہےدرد دل، مگر عمل سے خالی ہو حسیب
قلم کی تیغ اُٹھا لو جو مُسلماں تُم ہو