اک اور شمع بُجھی، اور سایا سمٹ
گیا
بستی ہماری سے شفیق بادل ہی جھٹ
گیا
اِک مُسکراتا چہرا تاریکیاں تھا مِٹاتا
ہوا
ازل کو کوُچ کیا ایسا کہ، دیا ہی اُاٹ
گیا
رحمتیں اُس پہ کریں اے میرے خدا
وہ ایک شخص، محبتیں لُٹا کے گُزر گیا
میں جانتا ہوں ہر رستا وہیں کو جاتا ہے
ہمیں بھی جانا وہیں پہ وہ جدھر گیا
حسیب آج بھی راہیں یوں ہی مُنور ہیں
چراغ نہاں سے روشن وہ راہیں حو کر گیا