سال بہت ہو
چُکے
گرہ باندھتے باندھتے
اب توقف حضور
ڈوری کھِچھنے کو ہے
جاں بالب ہو چلی
سانس اُکھڑنے کو ہے
عمر بھر کا سفر
خاک ہونے کو ہے
مُنتظِر خاک اب
چاک ہونے کو ہے
لہدِ مُضطرِب جِناب
بیباک ہونے کو ہے
جِسمُ و جاں کا محل
تراب ہونے کو ہے
حسیب یہ زندگی
خواب ہونے کو ہے