دیوانے

تو نہ آیا ، تیرے دیوانے کِدھر جایئں گے
شدتِ درد جُدائ تو نہ سہہ پایئں گے


تو نہیں ہے، تیرے آنے کی تمّنا اب بھی
دِن اِس تمّنا کے سہارے کیا گُزر جایں گے؟


ہم نے سوچا تھا، تیری یاد کا تحفہ لے کر
تیرے کُوچے کی سِمت نِکل جایں گے


تیری خُوشبو کے تعاقب میں ہوا کی مانند
تیرے کوچے کی فضاوں میں بِکھر جایں گے


تیری گلیاں تیری یادوں سے مُنور کر کے
تیری دہلیز پہ پہنچیں گے، ٹھہر جایں گے


خاکِ دہلیز تیری یادوں سے مہک اُٹھے گی
مُشکبو یادوں کے رنگ آنگن میں اُتر آیئں گے


تیرے کوچے میں پہنچے تو کیا منظر دیکھا
نام لینے پہ تیرے، لوگ ایسے بِپھر جایں گے


سنگ دل لوگوں کی سنگریزوں کی بارِش کرنی
کیا خبر تھی ہمیں، سنگسار یوں ہو جایں گے


اور تیری یاد کو سینے سے لگا کر ہم پھِر
تیرے کوچے، تیری گلیوں سے نِکل جایں گے


سنگ دل لوگوں کی یہ کیسی ہے بستی حسیب
اپنی آنکھوں میں نمی لے کر کِدھر جایں گے