موت کی حقیقت، کِسی پسماندہ دِل
سے پوُچھ
وہ تُجھ سے کیا کہے گا جو خُود کر گیا
ہو کوچ
تُو سدا رہے سلامت، تیرے بام و در کی خیر
میں ہوں بام و در سے باہر،سو میری خبر نہ
پوچھ
کبھی دھُوپ، تیغ زن اور کبھی مُشتعل
ہوایئں
کیسا خاک و خُوں کا توفاں میرے ہم نفس نہ
پوُچھ
شب و روز تُجھ پہ ہووے یوں ہی رحمتوں کی
بارِش
میں ہوں ظُلمتوں کا راہی، میرے روز و شب نہ
پُوچھ
حسیب تُم تو چھوڑ آے کیئ قرضِ جاں وطن میں
سو ہے زیست کُتنی بوجھل اور مُضطرِب نہ
پوُچھ